چھبیسویں ترمیم کے بعد عدلیہ غلام بن چکی ہے، عدالتیں غیر فعال ہیں اور ججز سیاسی بابو بن چکے ہیں

کراچی (ایچ آراین ڈبلیو) تحریک تحفظ آئین پاکستان کے رہنماؤں نے کراچی پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعلان کیا کہ 14 نومبر کو حیدرآباد بائی پاس پر تاریخی جلسہ کیا جائے گا، جس میں تحریک تحفظ آئین پاکستان اور پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی قائدین شرکت کریں گے۔ رہنماؤں نے کہا کہ یہ جلسہ ملک میں آئین و قانون کی بالادستی اور عوامی مینڈیٹ کے احترام کے لیے ایک تاریخی سنگ میل ثابت ہوگا۔

پریس کانفرنس میں تحریک تحفظ آئین پاکستان کے مرکزی وائس چیئرمین و صدر سندھ یونائیٹڈ پارٹی سید زین شاہ، پی ٹی آئی سندھ صدر حلیم عادل شیخ، مجلس وحدت المسلمین کے علامہ حیات عباس، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے ڈاکٹر محمود اور جمعیت علماء اسلام (شیرانی گروپ) کے مفتی حافظ سمیت دیگر رہنما شریک تھے۔

تحریک تحفظ آئین پاکستان کے مرکزی وائس چیئرمین سید زین شاہ نے کہا کہ تحریک تحفظ آئین پاکستان 2024 کے عام انتخابات کے بعد اس لیے بنی کہ ملک میں آئین کی بالادستی ختم ہوچکی ہے۔ 2022 کے بعد ہائبرڈ نظام مسلط کیا گیا، جبکہ موجودہ حکومت بوگس الیکشن کے ذریعے قائم کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ملک صرف آئین کے تحت ہی چل سکتا ہے، صدر اور وزیراعظم اگر ماورائے آئین اقدامات کریں گے تو ملک کیسے چلے گا۔

سید زین شاہ نے کہا آئین و قانون کی بالادستی کے لیے موجودہ نظام کا خاتمہ ضروری ہے پورے ملک میں عوامی رابط مہم کریں گے 14 نومبر کو حیدرآباد بائے پاس پر تاریخی جلسہ ہوگا جلسے میں تحریک تحفظ آئین پاکستان کی مرکزی قائدین شرکت کریں گے انہوں نے کہا پارلیمانی نظام کو تبدیل کر کے اگر صدارتی نظام کو لانے کی کوشش کی گئی گئی تو ہم بھرپور مخالفت کریں گےعام انتخابات میں عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالا گیا عوام کا مینڈیٹ چوری کیا گیا۔ چوری شدہ مینڈیٹ سے بننے والی حکومتیں عوام کو قبول نہیں ہیں۔

سید زین شاہ نے کہا کہ 27ویں آئینی ترمیم سے پاکستان کے آئین کی بنیادیں ہلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس ترمیم کے ذریعے صوبوں کے اختیارات ختم کرنے کی سازش ہو رہی ہے جو پارلیمانی جمہوریت پر براہ راست حملہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر صوبوں کے نام پر کسی قسم کی تبدیلی کی گئی تو بھرپور مزاحمت کی جائے گی۔ تحریک تحفظ آئین پاکستان چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان میں عوامی رابطہ مہم شروع کر رہی ہے تاکہ عوامی شعور بیدار کیا جائے اور اس ہائبرڈ جعلی نظام کا خاتمہ کیا جاسکے۔

پی ٹی آئی سندھ کے صدر حلیم عادل شیخ نے کہا کہ آئین پہلے ہی توڑا جاچکا ہے، نہ انصاف کی حکمرانی ہے نہ ہی اظہار کی آزادی ہے اب اس آئین کے مزید بکھرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ چھبیسویں ترمیم کے بعد عدلیہ غلام بن چکی ہے، عدالتیں غیر فعال ہیں اور ججز سیاسی بابو بن چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ قوم کے عظیم لیڈر عمران خان، ان کی لیڈرشپ اور کئی خواتین کارکنان قید میں ہیں، جبکہ ہمارے اپوزیشن لیڈروں کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں چالیس چالیس سال کی سزائیں دی دیکر ظلم، جبر کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تحریک تحفظ آئین پاکستان عوامی جدوجہد پر یقین رکھتی ہے، ہمارے پاس کوئی گینگ وار نہیں بلکہ ہم عوام کی طاقت سے موجودہ چوری شدہ مینڈٰیٹ سے زبردستی بنایا گیا نظام بدلنے آئے ہیں۔

حلیم عادل شیخ نے کہا کہ موجودہ حکمرانوں کے پاس مینڈیٹ نہیں، ایسے لوگ کسی آئینی ترمیم کا اختیار نہیں رکھتے۔ قوم کسی زبردستی کی ترمیم کو قبول نہیں کرے گی۔

کراچی کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شہر میں ہمیشہ لسانیت کا کارڈ کھیلا گیا، عوام پر ظلم و جبر جاری ہے، ای چالان عوام پر مسلط کیا گیا جبکہ شہر کا نظام تباہی کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں صحت، زراعت اور انصاف کا نظام تباہ ہوچکا ہے، پیپلز پارٹی نے صوبے کو برباد کردیا ہے۔
حلیم عادل نے کہا کہ پہلے بھٹو کی پیپلز پارٹی جمہوریت کی بات کرتی تھی، اب زرداری کی پیپلز پارٹی صرف ڈیلز کرتی ہے۔
مجلس وحدت المسلمین کے علامہ حیات عباس نے کہا کہ حکومت ظلم پر قائم نہیں رہ سکتی۔ ہم تحریک تحفظ آئین پاکستان کی ہر تحریک میں شامل ہیں تاکہ عوام کو ان کے حقوق مل سکیں۔

پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے ڈاکٹر محمود نے کہا کہ چوری کے مینڈیٹ سے آنے والی حکومتیں ناقابل قبول ہیں۔ سیاسی قیدیوں کی رہائی اور آئین کی بالادستی کے لیے ہم تحریک کے ساتھ ہیں۔

جمعیت علماء اسلام (شیرانی گروپ) کے مفتی حافظ نے کہا کہ موجودہ نظام سلیکٹڈ ہے، عوامی نہیں۔ عوام پر جبر، تشدد، اور معاشی قتل جاری ہے۔ کراچی کے شہری بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، اور ڈمپر مافیا شہریوں کی زندگیاں چھین رہا ہے۔

رہنماؤں نے کہا کہ تحریک تحفظ آئین پاکستان ملک میں آئین، قانون اور جمہوریت کی بالادستی کے لیے عوامی جدوجہد جاری رکھے گی۔ 14 نومبر کا حیدرآباد جلسہ اس تحریک کا ایک تاریخی آغاز ہوگا جس میں عوام کے حقیقی نمائندے اپنی آواز بلند کریں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں