تحریر:سیدہ زہرہ فاطمہ
(ایچ آراین ڈبلیو)آج پھر زمین نے بیٹی کا خون پیا ہے، آج پھر آسمان نے غیرت کی پگڑی کو خون میں لت پت دیکھا ہے، آج پھر خاموشی نے شور مچایا ہے.اور اس شور کو بھی کسی نے نہ سُنا۔ڈیڑھ سال پہلے دو انسانوں نے ایک ساتھ جینے کا خواب دیکھا، ایک سادہ سا خواب، جو دنیا کے کسی کونے میں جرم نہیں ہوتا پسند کی شادی مگر اس دھرتی پر، اس بلوچ قبیلے میں، یہ خواب دیکھنا گویا موت کو دعوت دینا تھا۔شیتل اور زرک نے ایک دوسرے کا انتخاب کیا، نکاح کیا، نئی زندگی کا آغاز کیا۔ مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کا قبیلہ اس “گناہ” کو معاف نہیں کرے گا۔ ڈیڑھ سال گزر گئے، مگر غیرت کی آگ بجھی نہیں اس دن انہیں دعوت پر بلایا گیا، مگر کھانے کی نہیں، قتل کی دعوت تھی۔
ایک چٹیل میدان میں دونوں کو گاڑیوں کے قافلے میں لا کر اتارا گیا۔ سامنے کھڑے 19 بلوچی مرد، جن میں پانچ کے پاس جدید اسلحہ تھا، شیتل اور زرک کو گھیرے ہوئے تھے۔ شیتل نے بڑی چادر اوڑھی ہوئی تھی، ہاتھ میں قرآن تھا گویا اس نے اپنا مقدمہ اللہ کے حضور پیش کر دیا تھا، کیونکہ زمینی عدالتوں میں تو اسے کوئی انصاف نہ ملنا تھا۔
اس نے کہا، “صرف گولی مارنے کی اجازت ہے مگر کون سی اجازت، کیسی اجازت؟ وہاں تو فیصلہ پہلے ہی سنایا جا چکا تھا۔شیتل کو 9 گولیاں ماری گئیں، وہ زمین پر گرتے ہوئے بھی پُرامن تھی اس کے جسم میں گولیوں کا شور تھا، مگر اس کی آنکھوں میں سکون۔ پھر زرک کی باری آئی، اسے دوگنا گولیاں ماری گئیں شاید جرم بھی دوگنا تھا کہ اس نے نہ صرف محبت کی، بلکہ اپنی محبوبہ سے نکاح بھی کیا۔
یہ واقعہ محض ایک قتل نہیں یہ ریاست، عدلیہ، معاشرہ، اور ہر اُس خاموش انسان کا ماتم ہے جس نے اس ظلم پر آنکھیں بند کیں۔ یہ قتل صرف دو انسانوں کا نہیں، یہ انصاف کا قتل ہے، اخلاق کا قتل ہے، انسانیت کا قتل ہے۔
ہمارے ہاں “غیرت” کا مطلب صرف عورت کی مرضی کیوں ہے؟ کیوں ایک بیٹی اگر اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنا چاہے تو وہ باغی، بے حیا، بے غیرت کہلاتی ہے؟ اور کیوں ایک ماں، بہن یا بیٹی کو قتل کرنے والا “غیرت مند” قرار پاتا ہے؟ کیا غیرت کی تعریف صرف عورت کے جسم و جان سے جڑی ہے؟ اور وہ بھی صرف اُس وقت جب وہ اپنے لیے جینے کا حق مانگتی ہے؟کیا شیتل نے جرم کیا تھا؟ نہیں، وہ تو نکاح کے ساتھ عزت دار زندگی گزار رہی تھی۔ کیا زرک نے جرم کیا تھا؟ نہیں، اس نے دینِ اسلام کے طریقے سے شادی کی تھی۔ تو پھر جرم کیا تھا؟ محبت؟ اپنی مرضی؟ نکاح؟ یا یہ کہ انہوں نے قبیلے کے حکم سے انکار کیا؟
ہم ایک ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں لڑکی کی مرضی پر “غیرت” لرزتی ہے، اور مردوں کی حیوانیت پر خاموش تائید ملتی ہے۔ جہاں کورٹ میں، جرگوں میں، سسرال میں، گلیوں میں ہر جگہ “راضی نامے” کے پردے میں بچیوں کو ذبح کیا جاتا ہے، اور قاتل چند ہفتوں بعد “راضی” کر لیے جاتے ہیں۔
شیتل کا قتل اس لیے زیادہ تکلیف دہ ہے کہ وہ خاموش چیخ بن گئی۔ اس نے نہ رحم کی بھیک مانگی، نہ آنکھوں میں فریاد تھی، نہ لبوں پر چیخ کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اب واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔اس کی خاموشی وہ طوفان تھی جو ان تمام چیخوں سے بھاری تھی، جو اس معاشرے میں کبھی نکلی ہی نہیں۔وہ مر گئی، مگر پیچھے سوال چھوڑ گئی:
“محبت کرنا جرم کب سے ہو گیا؟””کیا نکاح بھی گناہ بن گیا؟””ہم غیرت کے نام پر اپنی ہی بیٹیوں کو کتنی بار ذبح کریں گے؟”
قاتلوں نے شیتل کو مارا، مگر وہ مر کر بھی زندہ ہے اس کی آنکھیں آج ہر باپ، بھائی، اور مولوی سے سوال کر رہی ہیں کہ کیا اسلام یہی سکھاتا ہے؟ کیا قرآن اٹھانے والی بیٹی کے حق میں تم نے زبان کیوں نہ کھولی؟اس بلوچ قبیلے کو “غیرت مند” کہا جا رہا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ غیرت کا جنازہ اُسی میدان میں دفن کر دیا گیا جہاں شیتل کا لہو بہا۔ پگڑیاں واقعی جیت گئیں، مگر انسانیت ہار گئی، دین ہار گیا، محبت ہار گئی، بیٹی ہار گئی۔
ہمیں اب رکنا ہوگا۔ ہمیں بولنا ہوگا۔ کیونکہ اگر ہم خاموش رہے، تو کل کی شیتل ہماری اپنی بہن، بیٹی یا دوست بھی ہو سکتی ہے۔ اگر ہم نے اب بھی غیرت کے نام پر قتل کو معاف کیا، تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ہماری عدالتیں، ہماری پارلیمنٹ، ہمارے مولوی، اور ہمارا میڈیا سب کو اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی۔ صرف قانون بنانے سے کچھ نہیں ہوتا، قانون پر عملدرآمد کرنا ہوتا ہے۔ غیرت کے نام پر قتل کرنے والوں کو سرِعام سزا ملنی چاہیے، تاکہ آئندہ کوئی “دعوت” دے کر بیٹیوں کو قتل نہ کرے۔آخر میں شیتل کے لیے:
تم مر گئی ہو، مگر تمہاری خاموشی ہماری روح پر سوال بن کر زندہ رہے گی۔
تم نے ہمیں آئینہ دکھایا ہے کہ ہم کون ہیں، اور کہاں گر چکے ہیں۔تمہارے لہو کی سرخی آج غیرت کی سیاہی کو بے نقاب کر چکی ہے۔سلام تم پر کہ تم مار دی گئیں، مگر جھکیں نہیں۔


