یہ سرزمین سونا اگلنے والی ہے…
یہی زمین، جو دنیا کے نقشے پر قدرت کا شاہکار ہے۔
پہاڑوں کی برف، دریاؤں کا پانی، زرخیز کھیت، نیلے سمندر،
اور ان سب کے درمیان ایک قوم — جو محنتی بھی ہے، باصلاحیت بھی۔
پھر سوال یہی ہے:
جب سب کچھ ہمارے پاس ہے…
تو ترقی کیوں نہیں؟
غربت کیوں ہے؟
مایوسی کیوں ہے؟
اور غلامی کے احساس سے ہم آج تک آزاد کیوں نہیں ہو سکے؟
اس موضوع کی وضاحت ہم 8 حصوں میں کریں گے
**حصہ 1: وسائل کا سمندر — مگر استعمال صفر**
پاکستان کو قدرت نے بے شمار خزانے عطا کیے۔
مگر وہ خزانے آج بھی زمین میں مدفن ہیں — کیونکہ نیتیں دفن ہو چکی ہیں۔
ہمارے پاس **Hydropower potential 60,000 megawatts** ہے،
مگر ہم صرف **10,635 MW** ہی استعمال کر رہے ہیں۔
ہم دنیا کے **Top 10 water-scarce countries** میں شامل ہیں،
اور اپنے دستیاب پانی کا تقریباً **30%** پرانے نظام کے باعث ضائع کر دیتے ہیں۔
زراعت ہمارا فخر ہے — یہ جی ڈی پی کا 23 فیصد بنتی ہے —
مگر کسان آج بھی بیل اور پرانے اوزاروں کے سہارے ہیں۔
تھر کے کوئلے کے ذخائر 175 ارب ٹن ہیں —
جو **100,000 MW** بجلی **200 سال** تک پیدا کر سکتے ہیں —
مگر ہمارے گھروں میں اندھیرا ہے۔
یہ سب کچھ جاننے کے بعد بھی ہم خاموش کیوں ہیں؟
یہ وسائل خاموش نہیں — ہم خاموش ہیں۔
**حصہ 2: توانائی کا بحران — اندھیرے کا کاروبار**
دنیا renewable energy کی طرف جا رہی ہے،
اور ہم آج بھی دو کھرب ساٹھ ارب روپے کے گردشی قرضے (Circular Debt) کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔
ہم ڈیم نہیں بناتے،
کیونکہ کمیشن وہاں نہیں ہوتا۔
ہم سستی بجلی نہیں دیتے،
کیونکہ طاقتوروں کا منافع کم ہو جاتا ہے۔
ایران سے سستا تیل اور گیس خریدنے کی گنجائش موجود ہے،
مگر اجازت نہیں۔
تھر، ہوا، سورج — سب ہمارے پاس ہیں —
مگر عوام کے حصے میں اندھیرا آتا ہے۔
یہ ملک بجلی سے نہیں، پالیسی سے محروم ہے۔
**حصہ 3: زراعت — وہ جو ہمیں زندہ رکھتی ہے**
ایک کسان صبح سے شام تک پسینہ بہاتا ہے۔
زمین کو سیراب کرتا ہے،
لیکن خود بھوکا سو جاتا ہے۔
دنیا smart irrigation systems اور drone farming تک پہنچ گئی،
مگر ہم آج بھی manually پانی چھوڑنے کے لیے نالوں میں کھڑے ہیں۔
وہی کسان جو ہماری غذائی ریڑھ کی ہڈی ہے،
قرضوں، مہنگائی، اور middlemen کے شکنجے میں پسا ہوا ہے۔
یہ نظام کسان کو نہیں،
بلکہ بھوک کو زندہ رکھتا ہے۔
**حصہ 4: تعلیم — علم سے خوفزدہ نظام**
وہ بہتر تعلیم دے سکتے تھے، مگر نہیں دی۔
کیونکہ تعلیم یافتہ قوم سوال کرتی ہے،
اور سوال کرنے والی قوم کبھی غلام نہیں رہتی۔
Pakistan کی literacy rate آج بھی **58%** ہے،
جبکہ بنگلہ دیش **76%** پر پہنچ چکا ہے۔
یہ نظام علم نہیں دیتا،
یہ اطاعت سکھاتا ہے۔
یہ شعور نہیں جگاتا،
یہ خاموشی پھیلاتا ہے۔
اور جب قوم سوچنا چھوڑ دے —
تو حکمران بادشاہ بن جاتے ہیں۔
**حصہ 5: قانون، انصاف اور خوف**
یہ وہ ملک ہے جہاں انصاف نایاب ہے۔
جہاں عدالتوں میں لاکھوں مقدمات برسوں سے لٹکے ہوئے ہیں۔
جہاں امیر کا قانون الگ،
اور غریب کے لیے صرف صبر۔
یہاں جرم نہیں پکڑا جاتا —
یہاں “کمزور” پکڑا جاتا ہے۔
یہ نظام عوام کی حفاظت نہیں کرتا،
بلکہ طاقتوروں کی دیواریں مضبوط کرتا ہے۔
**حصہ 6: کرپشن — وہ ناسور جس نے جڑیں کھا لیں**
دنیا کی کرپشن انڈیکس میں 180 ممالک میں پاکستان کا نمبر 133 ہے۔
یہ اعداد و شمار نہیں، شرمندگی ہے۔
یہ وہ “وہ” ہیں جنہوں نے وعدے کیے،
مگر نیتیں بیچ دیں۔
جنہوں نے ترقی کے نام پر قرض لیے،
اور اپنے اکاؤنٹس بھرے۔
یہ ملک کے خزانوں کو نہیں لوٹتے،
یہ عوام کے خواب لوٹتے ہیں۔
اور سب سے خطرناک چوری وہ ہے —
جب امید چوری کر لی جائے۔
**حصہ 7: غلامی کا نیا چہرہ**
آج زنجیریں نہیں،
بلکہ نظام غلام بناتا ہے۔
جب آپ زیادہ محنت کرتے ہیں،
وہ زیادہ ٹیکس لگا دیتے ہیں۔
جب آپ اپنی زندگی بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں،
وہ مہنگائی کا ہتھوڑا گرا دیتے ہیں۔
یہ غلامی اب جسم کی نہیں —
ذہن کی ہے۔
یہ زنجیر اب لوہے کی نہیں —
نظام کی ہے۔
اور ہم سب…
اس قید میں ہیں۔
**حصہ 8: بیداری — وہ لمحہ جو سب بدل سکتا ہے**
لیکن یاد رکھیں —
یہ کہانی ختم نہیں ہوئی۔
اب بھی وقت ہے،
کہ ہم اپنی آنکھیں کھولیں،
اور پہچانیں کہ دشمن کوئی باہر نہیں —
دشمن وہ سوچ ہے جو ہمیں خاموش رکھتی ہے۔
ہم سیاست کے غلام نہیں،
ہم شعور کے سپاہی ہیں۔
اگر ہم ایک قوم بن کر سوچیں —
تو یہ زمین ایک بار پھر اُٹھ کھڑی ہوگی۔
پانی بہے گا، بجلی روشن ہوگی،
اور کسان، مزدور، طالب علم —
سب کا حق انہیں واپس ملے گا۔
یاد رکھو —
قومیں دولت سے نہیں،
“آگہی” سے بنتی ہیں۔
اور جب شعور جاگتا ہے،
تو فرعون بھی کانپتا ہے۔
اٹھو…
اب خاموشی جرم ہے۔
اب غلامی قبول کرنا گناہ ہے۔
اب بولنا فرض ہے۔
یہ وطن تمہارا ہے —
اس کی قسمت تمہارے قلم، تمہاری زبان اور تمہارے ضمیر سے بدلے گی۔
کیونکہ اب ہم وہ قوم نہیں رہے جو خواب دیکھتی ہے —
اب ہم وہ قوم ہیں جو خواب پورے کرے گی۔
مشہور شاعر عدم نے ایسی ہی قوم کے لئے ایک بار کہا تھا کہ
عالمِ تخلیق کے اس حیرت کدے میں اے عدم
جس کو جتنی آگہی تھی، اُس قدر خاموش تھا۔
اور ظفر علی خان نے قیام پاکستان کے تناظر میں ایک صدی پہلے کہا تھا
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ جس کو خیال خود اپنی حالت بدلنے کا
پھر قرآن نے بھی اپنے کلام میں یہ کہہ کر مہر ثبت کر دی ہے
قرآن پاک کی سورہ الرعد کی آیت میں اللہ ہمیں آگاہ کرتا ہے:
إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنفُسِهِمْ
“بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلیں۔” — سورة الرعد 13:11
یہ آیت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ تبدیلی کا آغاز خود سے ہوتا ہے۔
اب خاموشی جرم ہے، اب محنت فرض ہے، اب شعور اور آگہی لازم ہے۔


