آج نیویارک کی فضاؤں میں ایک نیا باب لکھا گیا ہے — ایک ایسا باب جو صرف سیاست نہیں، بلکہ **ایمان، محنت اور امید** کی جیت ہے۔
جی ہاں —**ظُہران ممدانی** — وہ نوجوان مسلمان، جسے اب نیویارک شہر کا نیا میئر منتخب کر لیا گیا ہے۔
یہ وہی شہر ہے جس نے صدیوں سے تارکین وطن کو گلے لگایا — اور اب ایک **تارکِ وطن مسلمان** اس کا میئر بن گیا ہے!
ظہران ممدانی کے نیویارک کا مئیر بننے کے بعد لوگوں میں ان کے بارے میں جاننے کی جستجو اور شدید ہو گئی ہے، ممدانی کی ایک بہت بڑی شناخت ان کی بھارتی نژاد ماں ہیں، جنہیں کروڑوں فلم بین بہت اچھی طرح جانتے ہیں، آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں ظہران ممدانی کون ہیں
ظہران ممدانی کا تعلق کسی امیر سیاسی خاندان سے نہیں، بلکہ ایک ایسے گھر سے ہے جہاں **علم، فن اور انسانیت** سب سے بڑی دولت تھی۔
وہ **یوگنڈا کے شہر کمپالا** میں پیدا ہوئے، اور صرف **سات سال کی عمر میں اپنے والدین کے ساتھ نیویارک** منتقل ہو گئے۔ ان کے والد **پروفیسر محمود ممدانی** — یوگنڈا کے مشہور اسکالر،
جو افریقہ اور ایشیا کی سماجی تاریخ کے ماہر ہیں۔
اور ان کی والدہ **میرا نائر** — ایک ایسی فلم ساز جنہوں نے “سلام بمبے” اور “مون سون ویڈنگ” جیسی فلموں سے دنیا کو بھارت کے کلچر، جذبات اور انسانی کہانیاں دکھائیں۔
ایسا لگتا ہے جیسے **علم اور فن** دونوں کا خون ظہران کی رگوں میں دوڑتا ہے۔ ظہران نے اپنی تعلیم **Bowdoin College (امریکہ)** سے حاصل کی۔ یہاں انہوں نے سیاست، سماجیات اور معاشرتی انصاف پر گہری تحقیق کی۔
کالج کے دنوں میں ہی وہ انسانی حقوق، نسل پرستی کے خاتمے، اور تارکین وطن کے حقوق کے لیے سرگرم ہو گئے تھے۔ وہ ہمیشہ کہتے ہیں —
“میں نے اپنی ماں سے کہانی سننا، اور اپنے باپ سے انصاف سمجھنا سیکھا ہے۔”
ظہران نے اپنی سیاست کی شروعات “نیویارک اسٹیٹ اسمبلی” سے کی، جہاں انہوں نے عوامی خدمت، رہائشی مسائل، اور مزدور طبقے کے حقوق پر بے مثال کام کیا۔
پھر آہستہ آہستہ ان کی پہچان بڑھی۔ لوگوں نے کہا — “یہ سیاستدان نہیں، عوام کا بیٹا ہے۔” انہوں نے بڑے سرمایہ داروں کے اشتہارات کے بجائے عام عوام کی آواز کو اپنی طاقت بنایا۔ **یہی اخلاص، یہی سچائی، آج انہیں نیویارک کا میئر لے آئی۔**
نتائج کا اعلان ہوا تو ہال خوشی سے گونج اٹھا۔ **ظہران ممدانی نے 56 فیصد ووٹوں کے ساتھ فتح حاصل کی۔** وہ نہ صرف نیویارک کے سب سے کم عمر میئر ہیں —بلکہ **پہلے جنوبی ایشیائی ورثے والے** اور**افریقہ میں پیدا ہونے والے پہلے میئر** بھی ہیں۔
یہ تاریخ کا وہ لمحہ تھا جب نیویارک کے مسلمان، بھارتی، بنگلہ دیشی، اور پاکستانی نژاد شہری ایک آواز میں بول اُٹھے — **“ہم سب ظہران ہیں!”**
جب ظہران ممدانی نے جیت کے بعد تقریر کی —تو یہ سیاست نہیں، **روح کی گہرائی سے نکلی ہوئی آواز** تھی۔ انہوں نے کہا:
“میں اُس مذہب سے تعلق رکھتا ہوں، جو انصاف، محبت اور برابری کا درس دیتا ہے۔ میں ایک فخریہ مسلمان ہوں، اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ نیویارک میں ہر شہری خود کو محفوظ، محترم اور برابر محسوس کرے گا۔”
پورا ہال کھڑا ہو گیا، نوجوانوں نے “Unity and Justice for All” کے نعرے لگائے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب صرف ایک شخص نہیں، بلکہ پوری کمیونٹی جیت گئی تھی۔
ظہران ممدانی نے کہا: “یہ شہر صرف امیروں یا طاقتوروں کا نہیں — یہ سب کا ہے۔ چاہے آپ مسلمان ہوں یا یہودی، سیاہ فام ہوں یا سفید، ہم سب ایک ہیں — نیویارک والے!”
ان کے یہ الفاظ صرف تقریر نہیں تھے، بلکہ ایک **وعدہ** تھے — انصاف، امن اور برابری کا وعدہ۔
اور آخر میں ممدانی امریکا کے صدر ٹرمپ جو شروع ہی سے ان کی شدید مخالف گردانے جاتے ہیں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ سن لیں، نیویارک تارکین وطن کا شہر ہے اور رہے گا۔
ظہران ممدانی نے نیویارک کے عوام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم نےنیویارک میں تاریخ رقم کردی، عوام نے ثابت کردیا پاور ان کے ہاتھ میں ہے، نیویارک میں موروثی سیاست کا خاتمہ کردیا۔
ظہران ممدانی کی جیت ہمیں یہ سکھاتی ہے — کہ اگر نیت صاف ہو، ایمان مضبوط ہو، اور خدمت کا جذبہ دل میں ہو، تو دنیا کا کوئی شہر، کوئی خواب، آپ سے دُور نہیں۔ یہ صرف نیویارک کی نہیں — پوری اُمت کی جیت ہے۔
“ظہران ممدانی — ایک نام نہیں، ایک عہد ہے۔ کہ ایمان اور انصاف ساتھ چل سکتے ہیں اور جب ساتھ چلیں تو تاریخ بدل جاتی ہے۔”


