کراچی… وہ شہر جو کبھی روشنیوں کا مرکز کہلاتا تھا، آج سڑکوں پر موت کے سائے لیے کھڑا ہے۔
جنوری سے اکتوبر 2025 تک، صرف دس ماہ میں 720 شہری ٹریفک حادثات میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور 10 ہزار سے زائد زخمی ہوئے،
گزشتہ سال 771 ہلاکتوں کے بعد یہ اعداد اب خطرے کی گھنٹی بن چکے ہیں۔ ہر دن، اوسطاً دو شہری گھر سے نکلتے ہیں مگر واپس نہیں آتے — کیونکہ کراچی کی سڑکیں اب زندگی نہیں، حادثہ دینے لگی ہیں۔
ان حادثات کی سب سے بڑی قیمت وہ غریب طبقہ ادا کر رہا ہے جو موٹر سائیکل یا رکشے پر سفر کرتا ہے۔ ہیلمٹ کے بغیر، رفتار کی دوڑ میں، وہ اپنی زندگی کی بازی لگا دیتے ہیں۔
رکشہ ڈرائیور تین کی جگہ پانچ مسافر بٹھا لیتے ہیں، اور اکثر ان کی گاڑیاں تکنیکی طور پر ناقص ہوتی ہیں۔ سگنل توڑنا، غلط سائیڈ لینا، رونگ سائیڈ پر گاڑی چلانا یا موبائل فون پر بات کرتے ہوئے ڈرائیونگ کرنا اب عام بات ہے۔ نتیجہ — ایک لمحے کی غلطی، اور زندگی ختم۔
بھاری گاڑیوں کی صورتحال بھی کم خطرناک نہیں۔ ٹرک، ٹریلر، واٹر ٹینکر اور ڈمپر شہر کے رہائشی علاقوں میں دن رات دوڑتے ہیں۔ کئی حادثات میں یہ گاڑیاں چھوٹی موٹر سائیکلوں اور رکشوں کو کچل چکی ہیں۔
ڈرائیور اکثر تربیت یافتہ نہیں، نیند پوری نہیں کرتے، اور بعض اوقات نشے کی حالت میں ڈرائیونگ کرتے ہیں۔ لیکن قانون خاموش ہے — اور حکومت کا ردِعمل اکثر حادثے کے بعد کی رسمی کارروائی تک محدود رہتا ہے۔
شہر کی سڑکیں خود بھی حادثات کی بڑی وجہ ہیں۔ ٹوٹے ہوئے فٹ پاتھ، خراب سگنلز، غائب لین مارکنگ، اور پیدل پار کرنے کے لیے کوئی سہولت نہیں۔ ایمرجنسی کے وقت ایمبولینسیں ٹریفک میں پھنسی رہتی ہیں۔ حادثے کے بعد انصاف کے بجائے کاغذی کارروائی شروع ہو جاتی ہے۔
یوں لگتا ہے جیسے کراچی کی سڑکوں پر انسان کی نہیں، رفتار کی حکومت ہے۔ اب حکومتِ سندھ نے ایک نیا قدم اٹھایا ہے — **ای چالان سسٹم**۔
یہ نظام شہر میں جدید کیمروں کے ذریعے خودکار طور پر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی ریکارڈ کرتا ہے، اور ڈرائیور کے گھر تک چالان بھیج دیتا ہے۔پہلے مرحلے میں کراچی کے مختلف مقامات پر سینکڑوں جدید کیمرے نصب کیے گئے ہیں جو رفتار، سگنل توڑنے، اور لین کی خلاف ورزی کو ریکارڈ کرتے ہیں۔
یہ نظام اگر مکمل شفافیت اور سختی سے نافذ رہا تو ماہرین کے مطابق ٹریفک حادثات میں **کم از کم 25 سے 30 فیصد** کمی ممکن ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ڈرائیور کو یہ احساس ہوگا کہ اب خلاف ورزی چھپ نہیں سکتی۔ نہ رشوت، نہ سفارش — کیمرہ ہر چیز محفوظ کر لیتا ہے۔
ای چالان سے پولیس پر دباؤ بھی کم ہوگا، کیونکہ اب نظام خود بخود فیصلہ کرے گا۔ تاہم یہ سسٹم تب ہی کامیاب ہوگا جب حکومت اسے محض نمائشی منصوبہ نہیں بلکہ حقیقی اصلاح کے طور پر اپنائے۔
شہریوں کے رویّے میں تبدیلی بھی لازمی ہے۔ اگر موٹر سائیکل سوار ہیلمٹ نہ پہنے، یا رکشہ ڈرائیور اپنی جان اور دوسروں کی زندگی خطرے میں ڈالے، تو کوئی ای چالان بھی جانیں نہیں بچا سکتا۔ اصل تبدیلی تب آئے گی جب حکومت، پولیس اور عوام — تینوں اپنی ذمہ داری نبھائیں۔
کراچی کو صرف نئے قوانین نہیں، ایک نئی سوچ کی ضرورت ہے —
کہ سڑک رفتار دکھانے کی نہیں، زندگی محفوظ رکھنے کی جگہ ہے۔ جب یہ سوچ بدل جائے گی، تب ہی کراچی کی سڑکیں موت کا راستہ نہیں بلکہ زندگی کا سفر بن سکیں گی۔


