ہرسال ہیپا ٹائٹس کےتقریبا 2 کروڑکیسز رپورٹ، 35000 سے 55000 اموات واقع ہوتی ہیں عالمی رپورٹ

حیدرآباد(ایچ آراین ڈبلیو)عالمی یوم ھیپاٹائٹس کےموقع پرحیدرآباد کے معروف اسپتال ایشن انسٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے ڈائریکٹر سائنسز اورملک کےمعروف گیسٹروانٹالوجسٹ پروفیسر ڈاکٹر صادق میمن کی جانب سے ہیپاٹائٹس کے عالمی دن کے موقع پر ایک روزہ بیماری سے بچاواور علاج کے حوالے سے آگاہی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب میں ملک کے نامور ماہر امراض جگر ، فزیشن اور سینئر ڈاکٹرز ، مختلف اسکول کالجزوکےپرنسپلزمختلف شعبہ جات زندگی سےتعلق رکھنےوالے افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اس موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے تقریب کے میزبان پروفیسر ڈاکٹر صادق میمن نے کہا کہ ہر سال 28 جولائی کو پوری عالمی برادری ورلڈ ہیپا ٹائٹس ڈے مناتی ہے،جس کامقصد ہیپا ٹائٹس ، خاص طور پر ہیپا ٹائٹس جیسے وائرس کی سنگینی ، تشخیص، علاج اور روک تھام کے بارے میں شعور بڑھانا ہے۔ عالمی ادارہ صحت WHO کے تحت نئے انفیکشنز میں 90 فیصد کمی ، اور ہیپا ٹائٹس سے ہونے والی اموات میں 65 فیصد کمی کا ہدف مقرر کیا ہے۔ اور اس کے لیے عالمی سطح پر پالیسیاں، ویکسینیشن پروگرامز اور تشخیصی نظام متعارف کروائے جا رہے ہیں۔ ان تمام کوششوں کے باوجود صرف مصر وہ واحد ملک ہے جس نے اس ہدف کو کامیابی سے حاصل کیا ہے، جہاں حکومتی سطح پر بروقت فیصلے ، مربوط حکمت عملی، اور موثر عمل درآمد نے اسے ممکن بنایا۔ پاکستان میں بھی ماہرین امراض معدہ ( Gastroenterologists) نے حکومت کو متعدد بار جامع پالیسیاں اور عملی تجاویز فراہم کی ہیں ، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان پالیسیوں پر تا حال عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت وقت اس خطرناک اور تیزی سے پھیلتی بیماری کو سنجیدگی سے لے اور جلد از جلد مؤثر اقدامات کرے تا کہ ہم بھی 2030 کے ہدف کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔ یہ ایک چیلنج تو ہے مگر مناسب حکمت عملی، ویکسین ، جدید علاج اور عوامی شعور کے ذریعے انسانیت یہ اہداف حاصل کر سکتی ہے۔۔پروفسیر ڈاکٹر صادق میمن نے بتایا کہ عالمی ادارہ صحت کے تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق ، دنیا بھر میں تقریباً 30 کروڑ افراد ہیپا ٹائٹس B سے متاثر ہیں، جبکہ ہیپا ٹائٹس C کے مریضوں کی تعداد قریب ساڑھے پانچ کروڑ ہے۔ ان دونوں وائرسز کی وجہ سے ہر سال 13 لاکھ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، جن میں یرقان ، جگر کا سرطان، اور شدید جگر کی تکلیفیں شامل ہیں، جبکہ روزانہ تقریباً 3500 افراد ہلاک ہوتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صرف ہیپا ٹائٹس B متاثرین میں سے تین تہائی کو اس بات کی جانکاری نہیں ہوتی کہ وہ وائرس اپنے اندر رکھے ہوئے ہیں، اور صرف 13.5 فیصد مریضوں تک تشخیص کی سہولت پہنچتی ہے۔ ہیپاٹائٹس C میں تشخیص کی شرح بہتر ہے، مگر یہ بھی صرف 36 فیصد تک محدود ہے، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر ان امراض کی روک تھام کے لیے شعور ، اسکر ینگ اور ٹیسٹنگ مہمات کی شدت سے ضرورت ہے۔ہیپا ٹائٹس E / A بنیادی طور پر ترقی پذیر ممالک میں آلودہ پانی سے پھیلتا ہے اور ہر سال 55,000 افراد اس کا شکار ہو کر جان گنوا دیتے ہیں۔ تقریب سے مقررین نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان میں ہیپاٹائٹس B و C ایک شدید عوامی صحت کا مسئلہ بن چکے ہیں۔ تحقیق اور حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق ، ملک میں ایک کروڑ پچاس لاکھ افراد اس وبا کا شکار ہیں ، جن میں تقریباً40 لاکھ ہپاٹائٹس B اور 88 لاکھ سے ایک کروڑ ہیپا ٹائٹس C کے مریض شامل ہیں۔ہیپا ٹائٹس B کے کیسز عام آبادی میں 2.5 فیصد کے قریب ہیں، جبکہ ہپاٹائٹس C کا پھیلاؤ تقریباً 4 سے 5 فیصد ہے۔ علاقائی حوالے سے دیکھا جائے 2.5 ہیں، جبکہ و سے 5 تو سندھ، بلوچستان میں قدرے زیادہ ہے، اور اندرون سندھ بعض علاقوں میں 10 فیصد سے زیادہ بھی رپورٹ کی گئی ہیں ۔ تقریباً ہر سال پاکستان میں 50 ہزار سے ایک لاکھ نئے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں، اور 12 ہزار افراد اسی بیماری سے اموات کی زد میں آکر زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔پاکستان میں یہ و با بنیادی طور پر غیر محفوظ طبی عمل، دوبارہ استعمال ہونے والے سرنجز ، غیر معیاری اوزار اور دانتوں کے آلات، خون کی منتقلی میں معیار کی کمی اور انجکشن کے ذریعے منشیات کے استعمال کی وجوہات کی بنا پر پھیل رہی ہے۔ نشہ کرنے والوں (IDUS) میں 15 فیصد ہیپاٹائٹس B اور حیرت انگیز طور پر 68 فیصد ہیپا ٹائٹس C کارجحان پایا جاتا ہے۔ہیپاٹائٹس وائرس کی پانچ اقسام (A.B.C.D.E)میں سے دو ہیپاٹائٹس B وC سب سے خطرناک تصور کی جاتی ہیں، جنہیں خاموش قاتل”بھی کہا جاتا ہے کیونکہ ابتدائی مراحل میں یہ علامات ظاہر نہیں ہوتیں مگر جگر کو نا قابل تلافی نقصان پہنچاتے ہیں۔۔ ہیپا ٹائٹس A اور E دونوں وائرس بنیادی طور پر آلودہ پانی اور غیر محفوظ خوراک کے ذریعے پھیلتے ہیں اور ترقی پذیر ممالک میں ان کا پھیلاؤ زیادہ ہے۔ اورہیپا ٹائٹس A عام طور پر بچوں کو متاثر کرتا ہے، جبکہ ہیپا ٹائٹس E بالغ افراد خصوصاً حاملہ خواتین کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔عالمی اعداد وشمار کے مطابق ، ہر سال ہیپا ٹائٹس E کے تقریبا 2 کروڑ کیسز رپورٹ ہوتے ہیں جن میں سے 35000 سے 55000 اموات واقع ہوتی ہیں۔ پاکستان میں HEV کے کئی بڑے آؤٹ بریکس رپورٹ ہوئے ہیں، خاص طور پر کراچی، اسلام آباد، لاہور اور سیلاب زدہ علاقوں میں، جہاں پینے کے صاف پانی کی کمی اور ناقص نکاسی آب کے نظام نے اس وائرس کے پھیلاؤ کو تیز کیا۔ حاملہ خواتین میں ہیپا ٹائٹس E انفیکشن کی شرح اموات 16-33 تک بتائی گئی ہے جو کہ جگر کی شدید نا کامی ( Acute Liver Failure) کا باعث بنتی ہے۔ بچوں میں HEV کے خلاف قوت مدافعت (IgG مثبت ہونے) کی شرح 2022 میں تقریبا 18 سے 26 فیصد پائی گئی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ وائرس کم عمری میں عام طور پر منتقل ہو چکا ہوتا ہے۔ ایمس ہسپتال کی حالیہ ریسرچ 2024 کے مطابق بالغ افراد میں ہیپاٹائٹس کے خلاف مدافعت (IgG) 68% فیصد لوگوں میں پائی گئی۔ مقررین نے بتایا کہ پاکستان میں ہیپا ٹائٹس اے 6 سال کی عمر میں %90 فیصد بچوں کو ہو جاتا ہے۔ یہ زیادہ تر بغیر کسی علامت کے ہوتا ہے۔ ہیپاٹائٹس A کے لیے ایک محفوظ اور مؤثر و ٹر ویکسین کئی دہائیوں سے دستیاب ہے جو دنیا کے متعدد ممالک کے حفاظتی ٹیکہ جات پروگرام کا حصہ ہے، اگر چہ پاکستان میں یہ سرکاری سطح پر شامل نہیں لیکن نجی شعبے میں دستیاب ہے۔ ہیپا ٹائٹس E کے بارے میں تازہ پیش رفت یہ ہے کہ اس کی ویکسین اب عالمی سطح پر دستیاب ہے اور پاکستان میں بھی متعارف کرائی جا چکی ہے۔ یہ ویکسین HEV سے بچاؤ کا ایک مؤثر ذریعہ ہے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں بیماری کے پھیلنے کا خطرہ زیادہ ہے یا حاملہ خواتین کو بچانے کی ضرورت ہو۔ ان دونوں بیماریوں کا علاج زیادہ تر علاماتی (symptomatic) نوعیت کا ہے کیونکہ یہ عام طور پر خود بخود ختم ہو جاتی ہیں لیکن کمزور مدافعتی نظام رکھنے والے افراد اور حاملہ خواتین میں پیچیدگیاں زیادہ دیکھنے میں آتی ہیں۔ ہیپاٹائٹس B دنیا بھر میں ایک سنگین عوامی صحت کا مسئلہ ہے 2019 میں تقریباً 30 کروڑ افراد اس سے متاثر تھے، اور سالانہ 820,000 افراد ہیپاٹائٹس B کی پیچیدگیوں کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، جیسا کہ شدید جگر کی بیماری ، سروس اور جگر کا کینسر۔ پاکستان میں صورت حال بھی خطرناک ہے۔ نیشنل سروے (2007 سے 2008) کے مطابق HBV کا پھیلاؤ 2.5 فیصد تھا، یعنی تقریباً 40 لاکھ افراد HBV میں مبتلا ہیں۔ بچوں میں بھی شرح 1.9 سے 3.6 فیصد رہی ، اور خاص گروپس مثلاً ہیما فیلیا اتھلیسیمیا کے مریضوں اور حاملہ خواتین میں پھیلاؤ بڑھ کر دو گنا ہو سکتا ہے۔ ، اس بیماری کے پھیلاؤ کے بنیادی اسباب میں غیر محفوظ انجیکشنز ، دوبارہ استعمال ہونے والی سرنجز ، خون کے ناقص معیار سے ٹرانسفیوژن اور ماؤں سے بچوں تک منتقلی شامل ہیں .ہیپا ٹائٹس B ایک ایسا وائرس ہے جس سے مؤثر ویکسین کے ذریعے بچاؤ ممکن ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں یہ ویکسین حفاظتی ٹیکہ جات کے پروگرام کا لازمی حصہ ہے، مگر پاکستان میں پیدائش کے 24 گھنٹوں کے اندر ویکسین لگوانے کی شرح انتہائی کم ہے جو صرف 45 فیصد کے قریب ہے۔ اس شرح کو بڑھانے کے لیے حکومت کو چاہیے کہ نوزائیدہ بچوں کے لیے HBV” برتھ ڈوز ویکسی نیشن پروگرام ” ملک گیر سطح پر نافذ کرے اور دیہی علاقوں تک رسائی ممکن بنائے ، جہاں یہ بیماری زیادہ شدت سے موجود ہے۔ اس کے علاوہ حاملہ خواتین کی اسکرینگ لازمی بنائی جائے تا کہ متاثرہ ماؤں سے بچوں تک وائرس کی منتقلی رو کی جاسکے۔علاج کے لیے پاکستان میں اینٹی وائرل دوائیں جیسے ٹینوفوویر ( Tenofovir) اور انٹی کاور (Entecavir) دستیاب ہیں ۔ یہ دونوں ادویات حکومت سندھ مفت فراہم کر رہی ہے۔ جو بیماری کی پیش رفت کو روکتی ہیں، لیکن یہ دوائیں زندگی بھر استعمال کرنی پڑتی ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں HBV کے صرف 13 فیصد مریض اپنی بیماری سے آگاہ ہیں اور ان میں سے بھی 5 فیصد سے کم علاج کروارہے ہیں۔ تشخیص اور علاج کے اس خلا کو ختم کرنے کے لیے قومی سطح پر ہیپا ٹائٹس بی اسکریننگ کیمپس قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے تا کہ زیادہ سے زیادہ متاثرہ افراد کی بر وقت نشاندہی ہو سکے۔ہیپا ٹائٹس C کے لیے ویکسین موجود نہیں ہے، اس لیے اس بیماری سے بچاؤ کا واحد طریقہ عوامی شعور میں اضافہ محفوظ طبی عمل ، اور غیر محفوظ انجیکشنز کا خاتمہ ہے۔ پاکستان میں ہیپاٹائٹس C کا پھیلاؤ5 سے 7.5 فیصد تک رپورٹ ہوا ہے جو عالمی اوسط سے کئی گنا زیادہ ہے۔ بنگلہ دیش اور انڈیا میں اس کی کا ہے۔ اگر پاکستان پیپاٹائٹس کے خاتمے کے لیے اقدامات شروع نہ کرے تو 2030ء تک 7 لاکھ افراد ہیپا ٹائٹس سی کی وجہ سے ہلاک ہو سکتے ہیں جبکہ اس دوران 50 فیصد افراد 50 سال سے کم عمر ہوں گے۔پاکستان اور دنیا بھر میں کی گئی تحقیقات کے مطابق صرف 20 فیصد لوگوں کو اپنی بیماری کا علم ہے جبکہ 80 فیصد افراد لاعلم ہیں کہ وہ اس مرض میں مبتلا ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا گیا کہ پاکستان میں صرف 2 فیصد افراد ہپاٹائٹس سی کا علاج مکمل کرواتے ہیں جبکہ دنیا میں اس بیماری کا علاج کروانے والے افراد کی شرح 20 سے 40 فیصد ہے۔ مقررین نے بتایا کہ علاج کے حوالے سے خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں جیسی جدید دوائیں عالمی سطح پر سب سے سستی ہیں اور ایک مکمل کورس تقریباً 12000 روپے سے 45000 روپے میں دستیاب ہے۔ DAAS کے ذریعے ہیپاٹائٹس C کا علاج 8 سے 12 ہفتوں میں 97 فیصد مریضوں کو صحتیاب کر سکتا ہے۔ اس کے باوجود علاج تک رسائی ایک بڑا مسئلہ ہے کیونکہ ملک میں صرف 22 فیصد مریض تشخیص شدہ ہیں اور ان میں سے بھی محض 2 فیصد نے علاج شروع کیا ہے۔ یہ خلاختم کرنے کے لیے حکومت کو چاہیے کہ DAAS کو سرکاری اسپتالوں میں مفت فراہم کرے اور ضلعی سطح پر مفت اسکریننگ پروگرام شروع کرے تا کہ مرض کی بروقت تشخیص اور علاج ممکن بنایا جا سکے۔ سندھ حکومت ہیپا ٹائٹس کا 3 ماہ کا علاج مفت میں کر رہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں