پاکستان کے ترقیاتی ڈھانچے کی بنیاد اس کے صوبوں پر ہے۔ حقیقی ترقی کا دار و مدار صرف بجٹ کے حجم پر نہیں بلکہ اس بات پر ہے کہ وسائل کو کس حکمت اور دیانت داری سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ مگر برسوں سے ایک جملہ سیاسی اور عوامی گفتگو میں گونجتا رہا ہے:
“سارا پیسہ پنجاب لے جاتا ہے، سندھ کو کچھ نہیں ملتا۔”
اعداد و شمار اس بیانیے کو غلط ثابت کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سندھ کو فی کس کے حساب سے پنجاب سے کہیں زیادہ پیسہ مل رہا ہے، لیکن اس کے باوجود ترقی کے آثار ناپید ہیں۔ یہ فرق وسائل کا نہیں بلکہ **کارکردگی اور گورننس کا** ہے۔
اعداد و شمار کی زبان میں حقیقت
سرکاری بجٹ 2025 کے مطابق:
| صوبہ | آبادی | کل بجٹ | فی کس بجٹ |
| —– | ————— | ————- | ———– |
| پنجاب | 11 کروڑ 30 لاکھ | 5335 ارب روپے | 47,200 روپے |
| سندھ | 5 کروڑ 20 لاکھ | 3451 ارب روپے | 66,300 روپے |
یعنی سندھ کو فی شخص پنجاب کے مقابلے میں تقریباً **چالیس فیصد زیادہ** رقم مل رہی ہے۔
پھر سوال یہ ہے کہ لاہور، فیصل آباد، بہاولپور اور ملتان جیسے شہر تیزی سے کیوں ترقی کر رہے ہیں، جبکہ کراچی، حیدرآباد اور لاڑکانہ کے حالات دن بہ دن کیوں بگڑ رہے ہیں؟
مسئلہ کہاں ہے؟
1. بجٹ کی تقسیم میں نہیں، اس کے استعمال میں خرابی ہے
سندھ حکومت کے ترقیاتی بجٹ کا بڑا حصہ غیر ترقیاتی اخراجات میں ضائع ہو جاتا ہے — یعنی سرکاری عہدے داروں کی تنخواہیں، مراعات، اور دفتری خرچ۔ حقیقی ترقیاتی منصوبوں پر شاید 30 فیصد سے بھی کم خرچ ہوتا ہے، جب کہ پنجاب تقریباً 40 فیصد حصہ براہِ راست عوامی منصوبوں پر لگاتا ہے۔
2. ناقص منصوبہ بندی اور سست روی
کراچی کا کے-فور واٹر پروجیکٹ، حیدرآباد کی سڑکیں اور کراچی سرکلر ریلوے — سبھی سندھ کی گورننس کی ناکامی کی مثالیں بن چکے ہیں۔ سالہا سال فنڈز مختص ہونے کے باوجود نہ منصوبے مکمل ہوئے، نہ عوام کو ریلیف ملا۔
3. کرپشن کا دیمک
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق، سندھ میں کرپشن کی شرح پنجاب کے مقابلے میں تقریباً دو گنا ہے۔
“رشوت دیے بغیر کام نہیں ہوتا” — یہ جملہ سندھ کے عام شہری کا روزمرہ تجربہ ہے، جو عوامی اعتماد اور ترقی دونوں کو نگل رہا ہے۔
کراچی اور سندھ کا بحران
کے-فور واٹر پروجیکٹ 2007 میں شروع ہوا، مگر آج تک مکمل نہیں ہو سکا۔ اگر یہ منصوبہ وقت پر مکمل ہو جاتا تو کراچی کو روزانہ 650 ملین گیلن پانی ملتا۔
تاخیر نے ٹینکر مافیا کو جنم دیا، جو اب اربوں روپے کا کاروبار بن چکی ہے۔
اسی طرح ہر برسات میں کراچی اور حیدرآباد کی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ پچھلے پانچ سالوں میں سندھ کے ترقیاتی فنڈز کا 38 فیصد حصہ غیر استعمال شدہ رہا۔ یعنی پیسہ تھا، مگر استعمال کرنے کی اہلیت نہیں تھی۔
کراچی کی بلدیاتی نظام میں درجنوں ادارے — KMC، KDA، واٹر بورڈ، SBCA — ایک دوسرے سے الگ، غیر ہم آہنگ طریقے سے کام کرتے ہیں۔ اس کے برعکس لاہور اور فیصل آباد میں ایک مربوط شہری نظام ہے جو منصوبہ بندی، صفائی، ٹریفک اور ترقی کے معاملات کو ہم آہنگی سے چلاتا ہے۔
پنجاب کا ماڈل — گورننس اور ڈسپلن
پنجاب کی ترقی محض وسائل کی فراوانی سے نہیں، بلکہ نظم و ضبط اور مانیٹرنگ سے ممکن ہوئی۔
لاہور میٹرو بس صرف 11 ماہ میں مکمل ہوئی، اورنج لائن ٹرین دو سال میں۔ کیونکہ وہاں منصوبوں کی ڈیڈ لائنز مقرر تھیں اور ان پر سخت نگرانی کی گئی۔
2013 کے بعد پنجاب میں مقامی حکومتوں کو ترقیاتی فیصلوں میں حصہ دار بنایا گیا، جس سے اختیارات نچلی سطح تک منتقل ہوئے۔ عوامی دباؤ، میڈیا کی نگرانی اور شہری شعور نے حکومتوں کو جواب دہ بنایا۔
وفاقی عذر یا صوبائی ناکامی؟
سندھ حکومت اکثر تاخیر سے وفاقی فنڈز ملنے کا شکوہ کرتی ہے، مگر یہ وضاحت نہیں دیتی کہ اپنے ہی صوبائی محصولات کیوں کم جمع ہوتے ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ سندھ کی مالی ناکامی، کرپشن اور بدانتظامی وفاقی مسئلہ نہیں بلکہ **صوبائی ناکامی** ہے۔
حل کیا ہے؟
1. **شفافیت:** ہر ترقیاتی منصوبے کی لاگت، مدت اور تکمیل کی تفصیلات عوام کے لیے آن لائن دستیاب ہوں۔
2. **متحدہ شہری نظام:** کراچی کے تمام بلدیاتی اداروں کو ایک مرکزی شہری اتھارٹی کے تحت لایا جائے۔
3. **عوامی نگرانی:** ہر بڑے منصوبے کے بعد *پبلک آڈٹ* ہو جہاں شہری سوال اٹھا سکیں۔
4. **اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی:** مضبوط بلدیاتی نظام کے بغیر کوئی صوبہ ترقی نہیں کر سکتا۔
5. **نجی و عوامی اشتراک:** انفراسٹرکچر اور سیوریج کے منصوبوں میں شفاف انداز سے پرائیویٹ سیکٹر کو شامل کیا جائے۔
اصل سوال
اب وقت آ گیا ہے کہ یہ پرانا بیانیہ دفن کر دیا جائے کہ *“پنجاب سارا پیسہ کھا جاتا ہے”*۔
اصل سوال یہ ہے:
> **“جب سندھ کو پیسہ مل رہا ہے، تو ترقی کہاں جا رہی ہے؟”**
پنجاب نے ثابت کر دیا کہ ترقی کے لیے وسائل نہیں، *نظم، دیانت داری اور وژن* ضروری ہیں۔ سندھ کا المیہ یہ ہے کہ یہاں وسائل موجود ہیں مگر نیت اور نظام دونوں مفلوج ہیں۔
گزشتہ دو دہائیوں سے ایک ہی سیاسی جماعت سندھ پر حکومت کر رہی ہے۔ صوبائی خودمختاری کے نام پر عوامی احتساب سے بچنے کی روش نے سندھ کو پسماندگی کی انتہا تک پہنچا دیا ہے۔ کراچی، حیدرآباد اور اندرونِ سندھ کے عوام اب وہ سوال پوچھ رہے ہیں جو برسوں دبایا گیا:
ہمارا پیسہ آخر کہاں جا رہا ہے؟
**مصنف کے بارے میں:**
*ندیم احمد جمال ایک انسانی حقوق کے علمبردار، وکیل اور سماجی محقق ہیں، جو گورننس، شفافیت اور عوامی پالیسی کے موضوعات پر لکھتے ہیں۔*


