یومِ اساتذہ — تہذیب و ترقی کا واحد راستہ

دنیا بھر میں ہر سال ۵ اکتوبر کو “یومِ اساتذہ” منایا جاتا ہے — یہ دن ان عظیم شخصیات کے نام ہے جو علم، کردار اور شعور کی شمعیں روشن کر کے نسلوں کو انسانیت، انصاف اور تہذیب کی راہوں پر گامزن کرتی ہیں۔ استاد صرف ایک پیشہ ور نہیں ہوتا، بلکہ وہ قوم کا معمار، ضمیر کا نگہبان اور تمدن کا بنیاد رکھنے والا ہوتا ہے۔ جس معاشرے نے استاد کی قدر کو پہچان لیا، اُس نے ترقی کی سمت کا تعین کر لیا۔

ترقی یافتہ اور مہذب ممالک میں اساتذہ کو اعلیٰ ترین مقام حاصل ہے۔ جرمنی اور جاپان جیسے ممالک نے صدیوں پہلے یہ حقیقت جان لی تھی کہ قومیں تعلیمی نہیں بلکہ تربیتی انقلاب سے بنتی ہیں، اور اس انقلاب کا بانی استاد ہوتا ہے۔ جرمنی میں اساتذہ کو معاشرتی سطح پر وہی درجہ دیا جاتا ہے جو ججوں، سائنس دانوں اور ماہر ڈاکٹروں کو حاصل ہے۔ ان کی تنخواہیں، تربیت، اور سماجی عزت اس بات کا ثبوت ہیں کہ جرمن قوم نے اپنی فکری بنیادوں کو مضبوط ہاتھوں میں سونپ رکھا ہے۔
جاپان میں اساتذہ کو وہ احترام حاصل ہے جو کسی روحانی رہنما کو دیا جاتا ہے۔ جاپانی لفظSensei(سنسی) کا مطلب ہے ’’جو ہم سے پہلے آیا‘‘ — یعنی وہ جو رہنمائی کے قابل ہو۔ جاپان کے اسکولوں میں بچے روزانہ اپنے اساتذہ کو جھک کر سلام کرتے ہیں، حکومت انہیں بہترین سہولیات فراہم کرتی ہے، اور معاشرہ انہیں اپنی قومی عظمت کا سرچشمہ سمجھتا ہے۔ یہی وہ ملک ہے جو دوسری جنگِ عظیم کے بعد تباہی کے ملبے سے اُٹھا اور دنیا کی عظیم ترین معیشتوں میں شامل ہوا — کیونکہ جاپان نے سب سے پہلے اپنے استاد کا مقام پہچانا۔

اس کے برعکس، پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں اساتذہ کو اکثر نظرانداز کیا جاتا ہے۔ وہ کم تنخواہوں، محدود وسائل اور کمزور تعلیمی ڈھانچے کے باوجود قوم کے مستقبل کو سنوارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے پاس نہ مناسب سہولتیں ہیں، نہ سماجی احترام، اور نہ وہ عزت جو اُن کے کردار کے شایانِ شان ہو۔ یہی وہ المیہ ہے جو ان معاشروں کو پستی میں رکھتا ہے — کیونکہ جس ملک میں استاد محروم ہو، وہاں علم کمزور ہو جاتا ہے، اور جہاں علم کمزور ہو جائے، وہاں انسانیت، انصاف اور ترقی کے چراغ بجھ جاتے ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ ہر مہذب تمدن نے اپنے اساتذہ کو سب سے بلند مقام دیا۔ یونان کے فلسفی سقراط سے لے کر اسلامی سنہری دور کے علما، امام غزالی، ابنِ سینا اور فارابی تک — ہر دور میں علم و فکر کا آغاز استاد کے در سے ہوا۔ جس معاشرے نے استاد کا احترام کیا، وہاں علم نے جنم لیا، کردار نے طاقت پائی، اور قوم نے عروج حاصل کیا۔ جرمن فلسفی کارل تھیوڈر یاسپرز نے کہا تھا:

“استاد ایک تعلیم یافتہ انسان کی اصل صورت ہے۔”

درحقیقت، ترقی یافتہ اور پسماندہ قوموں کے درمیان اصل فرق معاشی نہیں بلکہ تعلیمی اور تہذیبی ہے۔ جہاں استاد کا احترام ہوتا ہے، وہاں نظم، اخلاق، اور ایجادات پیدا ہوتی ہیں۔ جہاں استاد کی توہین ہوتی ہے، وہاں جہالت، بدعنوانی اور انارکی پنپتی ہے۔ استاد کا ہاتھ جب تختہِ سیاہ پر چلتا ہے تو دراصل وہ قوم کی تقدیر لکھ رہا ہوتا ہے۔ چاک کا وہ ٹکڑا چھوٹا ضرور ہے، مگر اُس میں نسلوں کی روشنی پوشیدہ ہے۔

یومِ اساتذہ کے اس موقع پر ہمیں صرف زبانی خراجِ تحسین پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے، بلکہ حقیقی عزم کے ساتھ اس بات کا وعدہ کرنا چاہیے کہ ہم اپنے اساتذہ کو اُن کا وہ مقام دیں گے جو ایک معمارِ قوم کا ہونا چاہیے۔ استاد کو زندہ رہنے کے لیے نہیں، بلکہ قوم کو زندہ رکھنے کے لیے سہارا دیا جائے۔ جاپان اور جرمنی نے یہ سبق دنیا کو دے دیا ہے کہ جو قوم اپنے استاد کے سامنے جھکتی ہے، دنیا اُس کے آگے جھکنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ قومی عظمت کی راہ ایوانوں سے نہیں بلکہ “کلاس روم سے شروع ہوتی ہے”۔ جہاں ایک مخلص استاد اور ایک متجسس شاگرد موجود ہوں، وہی جگہ دراصل ایک نئی تہذیب کی بنیاد ہے۔
استاد ہی ترقی، تہذیب اور انسانیت کی وہ واحد راہ ہے جس پر چل کر ایک قوم اپنی تقدیر بدل سکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں