تحریر: شازیہ ناہید
(ایچ آراین ڈبلیو)اِخلاص و محبّت اور تحمّل وبرداشت جیسے اوصاف اگر کسی میں یک جا ہوں، تو وہ شخص نہ صرف اپنے خاندان بلکہ حلقۂ احباب اور پورے معاشرے کے لیے گویا ایک’’ مینارۂ نور‘‘ ہوتا ہے کہ اُس کی شخصیت کے روشن پہلو ہر سمت جگمگاتے ہیں، لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ موجودہ مادیّت پرست دَور میں تقریباً ہر طبقۂ فکر کے افراد افراتفری اور عدم برداشت کا شکار ہیں۔
لوگوں کے لیے چھوٹی چھوٹی باتیں برداشت کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ گھروں کی سطح پر دیکھیں، تو رشتوں میں دراڑیں دِکھائی دیتی ہیں اور اس کی بڑی وجہ عدم برداشت ہی ہے۔
بچّے، والدین کو برداشت نہیں کرتے۔ بھائی، بہن چھوٹی چھوٹی باتوں پر آپس میں لڑتے جھگڑتے ہیں۔ میاں بیوی کا رشتہ اپنا حُسن و جمال کھوتا جا رہا ہے۔طلاقوں کی شرح میں اضافے کی ایک بڑی وجہ بھی یہی عدم برداشت کا رویّہ ہے۔
ہم اپنے پیاروں، رشتوں کو کھو رہے ہیں اور اس پر ستم ظریفی یہ کہ ہمیں اِس ناقابلِ تلافی نقصان کا ادراک بھی نہیں ہو رہا۔ ہم صرف مال و دولت کے خسارے یا پھر کاروبار کے نقصان ہی کو ناکامی سمجھتے ہیں، حالاں کہ ہماری اصل متاع تو ہمارے اپنے رشتے ہیں۔
زندگی، قدرت کی ایک حَسین نعمت ہے، جسے لوگ خُود کُشیاں کرکے ختم کر رہے ہیں۔ کہیں بھائی، بھائی کا قتل کررہا ہے، تو کہیں کوئی خود سوزی کرکے خود کو ایک اذیّت ناک موت کے سپرد کررہا ہے۔ نوجوان گھریلو حالات سے تنگ آ کر موت کو گلے لگا رہے ہیں۔
یہ سب عدم برداشت ہی تو ہے، جو ایک جیتے جاگتے، زندگی سے بھرپور انسان کو اِس حد تک لے جاتی ہے کہ وہ زندگی پر موت کو ترجیح دے بیٹھتا ہے اور ان رویّوں کے پنپنے میں بڑھتی بے روزگاری، غربت، طبقاتی تقسیم اور ناانصافیوں نے اہم کردار ادا کیا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ہر سطح پر تقسیم اور تفریق واضح دِکھائی دیتی ہے۔ امیر کے لیے سب اچھا ہے اور غریب کے لیے سب بُرا اور بدترین۔
پاکستان میں عدم برداشت کی یہ صُورتِ حال مختلف عوامل کے زیرِ اثر ہے، جیسے مذہب، قومیت، سیاست، اور سماجی رویّے وغیرہ۔ مجموعی طور پر یہ مسئلہ مختلف شعبوں میں نمایاں ہے، البتہ کچھ تنظیمیں مذہبی و سماجی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے کوشاں بھی ہیں، لیکن چیلنجز بہرحال برقرار ہیں۔
نیز، حالیہ برسوں میں حکومت اور سیکیوریٹی اداروں نے بھی اس مسئلے پر قابو پانے کی کچھ کوششیں کی ہیں۔ جیسا کہ خواتین کے حقوق کے ضمن میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے، لیکن صنفی امتیاز اور گھریلو تشدّد اب بھی بڑے معاشرتی مسائل ہیں۔
غیرت کے نام پر قتل اور جبری شادیوں جیسے مسائل بھی برداشت کی کمی کی بڑی مثالیں ہیں۔اسی طرح اختلافِ رائے رکھنے والے سیاست دانوں، صحافیوں اور سماجی کارکنوں کو بھی اکثر ہراسانی یا سنسرشپ وغیرہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پھر جمہوری اداروں کی کم زوری بھی سیاسی عدم برداشت کو مزید بڑھاتی ہے۔ دراصل، پاکستان میں کئی نسلی گروہ آباد ہیں اور یہی یہ تنوّع کبھی کبھار تنازعات کا بھی سبب بنتا ہے۔
پھر عدم برداشت کی ایک بڑی وجہ تعلیم کی کمی اور روایتی نظریات بھی ہیں، جو مختلف گروہوں کے درمیان اختلافات بڑھاتے ہیں۔ نیز، سوشل میڈیا جہاں ایک طرف مختلف و متنوّع تصوّرات و خیالات سے روشناس کروانے کا ذریعہ ہے، وہیں یہ نفرت انگیز مواد کے پھیلاؤ اور پروپیگنڈے کی مشین بھی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارا پورا معاشرہ عدم برداشت کی وجہ سے مسلسل زوال پذیر ہے۔
سیاسی میدان سے لے کر سرکاری و نجی اداروں، اسکولز، کالجز، اسپتالوں، بازاروں، گلی محلوں اور سڑکوں پر آئے روز لوگ دست و گریبان دِکھائی دیتے ہیں۔ عدم برداشت نے گفتگو کے انداز بدل دئیے ہیں۔ کوئی ایک دوسرے کو سُننے، سمجھنے پر آمادہ ہی نہیں اور ایسے حالات و واقعات رُونما ہونے کے پیچھے یقیناً بہت سے عوامل کار فرما ہیں، لیکن قابلِ توجّہ مار یہ ہے کہ کسی انسان کی ایسی شخصیت پروان ہی کیوں نہیں چڑھائی جاتی، جو اخلاقی پہلوؤں سے مضبوط ہو، جس میں زندگی کے مشکل حالات کا مقابلہ ڈٹ کر کرنے کی سکت ہو، جو گِر کر سنبھلنا جانتا ہو، جس میں اِتنا حوصلہ ہو کہ دُکھ اُسے دل برداشتہ کرکے موت کے منہ تک نہ لے جائیں۔
بہرکیف، یہ طے ہے کہ آج ہمارا معاشرہ عدم برداشت ہی کی وجہ سے اخلاقی پستی کا شکار ہے اور ہمیں اِس کا ادراک ہی نہیں یا پھر دانستہ آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔ آخر حالات کیوں اِس نہج تک پہنچ چُکے ہیں، کوتاہی کہاں ہوئی، غلطی کس کی ہے؟ اِسی حوالے سے مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والوں سے بات چیت کی گئی، جو جنگ،’’ سنڈے میگزین‘‘ کے قارئین کی نذر ہے۔


