خیبرپختونخوا میں 2019 میں بچوں سے زیادتی کے واقعات بڑھ گئے

اسلام آباد (ایچ آراین ڈبلیو) ڈی آئی جی ہزارہ پولیس نے مانسہرہ زیادتی کیس پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ بچے کی حالت اتنی خراب تھی سوچا کہ کیا کوئی انسان ایسا کرسکتا ہے۔

سینیٹ کی خصوصی کمیٹی برائے تحفظ اطفال کا سینیٹر روبینہ خالد کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس میں بچوں سے زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات کا جائزہ لیا گیا اور ان کے تدارک پر بات چیت کی گئی۔ ارکان نے کہا کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات صرف مدرسوں تک محدود نہیں۔ سینیٹر ثمینہ سعید نے تجویز دی کہ بچوں سے ذیادتی کے ملزمان کو سخت سزائیں دی جائیں۔

جاوید عباسی نے کہا کہ ان واقعات میں 80 فی صد فیملی ،اساتذہ اور جاننے والے لوگ ملوث ہوتے ہیں،لوگ عزت کی خاطر چپ کر جاتے ہیں، بچوں کے تحفظ کے حوالے سے موجودہ قوانین کا جائزہ لیا جائے اور جامع رپورٹ تیار کر کے سینیٹ میں پیش کی جائے۔

روبینہ خالد نے کہا کہ غریب والدین کو پیسے دے کر صلح کر لی جاتی ہے، زیادتی کے بعد بچے کی موت ہو جاتی ہے تو پولیس اورلوگ اصل واقعے کودبا دیتے ہیں، بچوں سے زیادتی کے خلاف قوانین بنانے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کو ساتھ رکھا جائے۔

پولیس بریفنگ کے دوران ملک بھر میں بچوں سے زیادتی کی تفصیلات کمیٹی میں پیش کرتے ہوئے بتایا گیا کہ 2018 میں خیبر پختون خوا میں بچوں سے زیادتی کے 143 کیسز، اسلام آباد میں 130، بلوچستان میں 98 اور سندھ میں 1016 کیسز رجسٹرڈ ہوئے، خیبرپختونخوا میں 2019 میں بچوں سے زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوا، بچوں سے زیادتی کرنے والے لوگ زیادہ تر بچوں کو جاننے والے ہی ہوتے ہیں، جاننے والے، پڑوسی اور دکاندار بچوں کو زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں